حضرت العروۃالوثقی
حضرت خواجہ محمد معصوم
رحمتہ اللہ علیہ
آپ حضرت امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ کے صاحبزادہ اور جانشین ہیں۔ آپ ولادت ۱۰۰۷ھ میں سرہند شریف میں ہوئی اور اسی سال حضرت امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ محمد باقی باللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس لئے حضرت امام ربانی علیہ الرحمۃ حضرت عروۃ الوثقیٰ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت کو نیک فال خیال کرتے تھے اور اپنی زندگی ہی میں انکو قطب عالم کے منصب پر فائز ہونے کی بشارت دے دی تھی۔
گیارہ سال کی عمر میں حضرت امام ربانی رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو بیعت فرمالیا اور طریقت کی تعلیم دی۔ سولہ سال کی عمر میں تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کی تحصیل سے فارغ ہوئے۔ صرف ایک ماہ کی مختصر مدت میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اتباعِ سنت اور عمل بہ عزیمت کے سلسلے میں آپ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے عملی نمونہ تھے، جس کا اظہار مکتوبات معصومی میں بخوبی ہوتا ہے۔
حضرت امام ربانی علیہ الرحمۃ نے آپ کو وصیت فرمائی تھی کہ تم خوش دل ہو یا تنگ دل، ہر صورت میں جس سے بھی ملو خواہ وہ اچھا ہو یا برا، کشادہ پیشانی اور حسن اخلاق سے ملو۔ کسی پر اعتراض نہ کرو، گفتگو میں سختی ہرگز نہ کرو، خانقاہ کی ٹوٹی چٹائی کو تختِ سلطنت سمجھو۔ پرانی جھونپڑی اور سوکھی روٹی پر قناعت کرو۔ صحبت امراء اور مجلس سلطان سے پرہیز رکھو۔
حضرت معصوم رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی اسی عہد پر ختم ہوئی کہ سلطان شاہ جہاں آپ کی رفاقت کی تمنا کرتا رہا مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ سلطان عالمگیر حلقۂ ارادت میں داخل ہوا۔ حاکمِ وقت تھا مگر حضرت صاحب کا اس پر اس قدر رعب طاری رہتا تھا کہ مجلس میں جہاں جگہ مل جاتی بیٹھ جاتا تھا اور آپ کی خدمت میں ادب کی بنا پر زبان سے شاذ و نادر ہی کچھ عرض کرتا تھا۔ہمیشہ لکھ کر گذارشات پیش کرتا تھا۔
مشہور روایت کے مطابق آپ کے ساٹھ ہزار خلفاء اور نو لاکھ مریدین تھے۔ کئی بادشاہ آپ کے مرید تھے۔ جب آپ حجاز مقدس تشریف لے گئے تو ہزاروں کی تعداد میں اہل حرمین آپ سے بیعت ہوئے۔ اس قدر تبلیغی مصروفیات کے باوجود درس و تدریس کا مشغلہ کبھی ترک نہ کیا۔ عصر کے بعد وعظ نصیحت کی مجلس ہوتی تھی۔ خواتین کی تلقین اور نصیحت کے لئے وقت مقرر ہوتا تھا۔ لوگ باعیال آپ کے دربار میں آتے، جن کے لئے علیحدہ جگہ کا انتظام ہوتا تھا اور حضرت رحمتہ اللہ علیہ کی صاحبزادیاں درمیان میں واسطہ ہوتی تھیں۔
"تاریخ مرات العالم وجہاں نما" جواورنگزیب عالمگیرکےحکم سےلکھی گئی تھی اس میں لکھاہواہے کہ مشیخیت کی مسندپرکوئی ایساشخص نہیں بیٹھاجیساکہ خواجہ محمدمعصوم رحمتہ اللہ علیہ ۔ اطراف و اکناف عالم کےبادشاہ،علماء،مشائخ، چھوٹےبڑے، وضیع وشریف، مشرق سےمغرب اور شمال سےجنوب تک آپ کےمرید تھے۔ لاتعدادخاص وعام بندگان خداصبح وشام پروانوں کی طرح آپ پر جان فداکرتے۔ ہندوستان، توران، ترکستان، بدخشاں، دشت قبچاق، کاشغر، خطا، روم، شام اور یمن کےبادشاہ آپ کےمرید ہوئے۔ روئےزمین کےمختلف حصوں کےلوگ آپ کوخواب میں دیکھ کراورانبیاو اولیا سےخوشخبری پاکرحاضرخدمت ہوکرشرف بیعت سےمشرف ہوتے۔ مختلف ملکوں میں آپ کے خلفاء کی خدمت میں ہزارہا آدمیوں کامجمع رہتا۔ ہرروزسینکڑوں نئےمریدحاضرہوتےاورفناوبقااورپروردگارکا پوراپورا قرب حاصل کرتے۔ آپ کی مجلس کا روب اوردبدبہ اس قدرتھاکہ مجلس مبارک میں بڑےبڑےبادشاہ آپس میں گفتگو نہ کرسکتے تھے۔ بغیراجازت بات نہ کرتے۔ اگربڑاضروری کام ہوتاتوکاغذپرلکھ کرآپ کی خدمت میں پیش کرتے۔ اورنگزیب عالمگیرشہنشاہ ہندپراگرچہ آپ بدرجہ غائیت مہربان تھےلیکن پھربھی بسبب غائیت درجہ اس نےکبھی آپ کے حضورمیں کسی سے گفتگوکی اورنہ بغیراجازت بیٹھا۔
آپ کے ایک داماد نے پاشیدہ طور پر کسی دوسری عورت کی طرف رجوع کیا۔ صاحبزادیوں نے اس امر کی آپ سے شکا یت کی ۔آپ کی زبان سے نکلا مر جائے گا۔صاحبزادیوں نے عرض کی کہ جیتا رہے ۔فرمایا کہ بس جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔اب ایمان کی دعا کرو۔چنانچہ تین چار روز بعد اس کا انتقال ہو گیا۔
آپ کے ایک مرید کا بیان ہے کہ مجھے افلاس نے تنگ کیا تو میں گبھرا کر آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور غربت کے ہاتھوں سخت پریشان ہوں۔حضرت رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے روپوں کی تھیلی عنایت فرمائی اور فرمایا جس قدر چاہو خرچ کئے جاؤ اسے گننا مت۔میں حسب ضرورت اس سے وقتاً فوقتاً خرچ کرتا رہاحتیٰ کہ میں نے اس میں سے ایک لاکھ خرچ کر ڈالے لیکن وہ تھیلی اتنی کی اتنی رہی۔ایک روز میری بیوی نے وہ روپے گنے تو وہ سات سو نکلے۔اسکے بعد جب ہم نے خرچ کیا تووہ ختم ہوگئے۔
آپ کے خلیفہ حضرت خواجہ محمد صدیق پشاوری رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہایک بار میں حضرت رحمتہ اللہ علیہ سے اجازت لے کر اپنے وطن روانہ ہوا۔راستے میں سلطان پور کی ندی کے پل نیچے میں کپڑے پاک کر رہا تھاکہ میرا پاؤں پھسلا اور میں ندی میں گر گیا۔ میں تیرنا نہ جانتا تھا۔پانی سر سے اونچا ہو گیا تھا۔پانی مجھے کبھی اوپر لاتا کبھی نیچے۔ زندگی کی امید باقی نہ رہی تھی کہ یکایک حضرت رحمتہ اللہ علیہ نمودار ہوئے اور ہاتھ سے پکڑ کر مجھے باہر لا کھڑا کیااور خود نطر سے غائب ہو گئے۔
ایک شخص نے آپ کے حضور ایک رافصی کا ذکر کیا کہ وہ صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہتا ہے ۔آپ سخت ناراض ہوئے ۔آپ خربوزہ کھا رہے تھے۔ آپ نے چھری ہاتھ میں لے کر خربوزہ پر رکھ کر فرمایا کہ لو ہم رافصی کا سر کاٹتے ہیں۔ یہ کہہ کر آپ نے خربوزے کو دو ٹکڑے کر دیا۔اُسی روز وہ رافصی مرگ مفاجات سے مر گیا۔
آپ نے وفات سے دو تین روز پیشترقرب و جوار کے بزرگوں کو ایک رقعہ لکھا کہ وقت رحلت آ پہنچا ہے دعا فرمائیں کہ خاتمہ بالخیر ہوأوصال سے ایک روز پہلے جمعہ کے دن آپ مسجد میں تشریف لے گئےاور فرمایا کہ امید نہیں کہ میں کل اس وقت تک اس دنیا میں رہوں۔پھر سب کو پندو نصائح فرما کر خلوت مین تشریف لے گئے۔صبح کو نماز فجر کمال تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کی ۔حسب معمول مراقبہ کے بعد اشراق پڑی۔بعد ازاں سکرات موت آپ پر شروع ہو گئے۔اس وقت آپ کی زبان مبارک تیز تیز چلتی تھی ۔آپ کے صاحبزادوں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ آپ سورۃ یسٰین پڑھ رہےتھےغرض کہ ۹ ربیع الاول ۱۰۹۹ہجری بروزہفتہ کوآپ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مزار مبارک سرہند شریف میں زیارتگاہ خاص و عام ہے۔